۲۱ آذر ۱۴۰۳ |۹ جمادی‌الثانی ۱۴۴۶ | Dec 11, 2024
News ID: 405260
10 دسمبر 2024 - 22:00
مولانا کرامت حسین جعفری

حوزہ/ اب جبکہ شام میں انقلاب آ چکا ہے اور بشار الاسد حکومت کا خاتمہ ہو گیا ہے، مختلف تنظیموں اور گروہوں پر مشتمل آئندہ بننے والی حکومت کس آئیڈیالوجی اور مؤقف کو پیشِ نگاہ رکھ کر اپنی آئندہ کی حکمت عملی اپنائے تو اس سلسلے میں اس کے سامنے دو ہی راستے ہیں۔

تحریر: مولانا کرامت حسین جعفری، سابقہ ایڈیٹر صداقت ممبئی ھند

حوزہ نیوز ایجنسی | اب جبکہ شام میں انقلاب آ چکا ہے اور بشار الاسد حکومت کا خاتمہ ہو گیا ہے، مختلف تنظیموں اور گروہوں پر مشتمل آئندہ بننے والی حکومت کس آئیڈیالوجی اور مؤقف کو پیشِ نگاہ رکھ کر اپنی آئندہ کی حکمت عملی اپنائے تو اس سلسلے میں اس کے سامنے دو ہی راستے ہیں۔

یا اسرائیل کو تسلیم کرے اور شام کے مقبوضہ علاقوں کو اسرائیل کے حوالہ کر دے، فلسطین سے ہاتھ کھینچ لے اور وقت ضرورت دیگر عرب ممالک کی طرح دو ریاستی نظرئیے کے مفروضہ کی بات دہراتی رہے۔

یا پھر سابقہ چپقلشوں کو بھلا کر اپنا نظریہ درست کرے اور محور مقاومت کے ساتھ جُڑ جائے اور اسرائیل کے خلاف لڑنے کیلئے محور مقاومت میں خود کو شامل کرلے۔

اب اگر تحریر الشام اسرائیل مخالف محاذ “ ایران “ کے ساتھ جانے کا اعلان کرتا ہے تو اسے عرب ملکوں و ترکی چھوڑ دیں گے امریکہ اور دیگر مغربی ممالک کی طرف سے اس پر پابندی عائد ہو جائے گی، اقتصادی پابندیوں میں جکڑنے کی کوششیں شروع ہو جائیں گی، اسلحہ فراہمی کے راستے بند کیے جائیں گے۔

اب ان حالات میں تنہا ملک جو گزشتہ تمام تلخ اور کڑوی یادوں کو بھلا کر اس کی مدد کر سکتا ہے اور اسرائیل سے اس کی مقبوضہ زمین کو واپس دلاسکتا ہے اسے پابندیوں کی سختیوں کا مقابلہ کرنے اور اپنے پیروں پر کھڑے ہونے میں مددگار ثابت ہو سکتا ہے وہ بس ایران ہے۔

اب یہ شامی حکومت پر منحصر ہوگا کہ وہ کون سا راستہ اختیار کرتی ہے اسرائیل سے کسی طرح کا کوئی رابطہ نہ رکھ کر سربلندی کے ساتھ اپنی زمینوں کو واپس لیتی ہے اور قدس کی آزادی تحریک میں شامل ہوکر اپنے سر پر قدس کی آزادی کا سہرہ بندوا کر تاریخ میں اپنا نام سنہرے حروف میں ثبت کرواتی ہے یا دیگر عرب اور ترکی حکومتوں کی طرح اسرائیل اور امریکہ کی غلامی اور ذلت قبول کرتی ہے۔

اگر وہ ایک باغیرت مسلمان اور جوان مردی کا ثبوت دیتی ہے اور اسرائیل سے برسر پیکار ہونے کی ہمت کرتی ہے تو اس کے سامنے ایک ہی راستہ ہے وہ ایران سے مدد لینے کا راستہ ہے۔

ایس ٹی ایف کو بھی کسی حد تک اندازہ ہوتا جا رہا ہے کہ اگر وہ ترکی کے ڈکٹیشن پر چلتے ہیں تو اُسے اسرائیل کے سامنے تسلیم ہونا ہوگا اور شام کو اسرائیل اور ترکی کے درمیان سب سے بڑا تجارتی کوریڈور ملک بننا پڑے گا۔

اور پھر شام کی پیشانی پر ہمیشہ ہمیشہ کیلئے یہ کلنگ لگ جائے گا کہ جس بشار الاسد کو تم نے ڈکٹیٹر کہہ کر بھگایا اس نے اور اس کے باپ نے 54 سال تک اسرائیل کو تسلیم نہیں کیا۔(البتہ بشار الاسد آخر میں شاید مائل ہو گئے )

لیکن جونہی اسلامی تنظیموں نے بشار کی حکومت کو گرایا تو شام فوراً شیطان ظالم اسرائیل کیلئے سب سے بڑا سہولت کار معاون اور تجارتی کوریڈور ملک بن گیا۔

اور یہ وہ ذلت ہوگی جو دنیا میں ذلت و خواری اور آخرت میں عذاب الٰہی کا باعث ہوگی۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .